خواجہ الطاف حسین حالی مختصر تعارف

حالات زندگی:

مولانا حالی جن کا اصل نام الطاف حسین حالی تھا کی جائے پیدائش 1837ء میں پانی پت میں ہوئی۔ یہ وہی علاقہ ہے جو ضلع کرنال مشرقی پنجاب میں دلی سے صرف 33 میل شمال کی جانب واقع ہے۔ اس کی اہمیت ان باتوں سے واضح ہوتی ہے کہ 1526ء میں خاندان مغلیہ کے بانی ظہیر الدین بابر نے اسی میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست فاش دے کر ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔
1556ء میں اکبر اعظم نے اسی مقام پر ہیموں کا مقابلہ کیا اور اسے زندہ گرفتار کیا تھا۔ 1711ء میں کفر اور اسلام کا فیصلہ کن معرکہ حضرت احمد شاه ابدالی اور مرہٹوں کے درمیان ہوا۔ اس میں مرہٹوں کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ تھی جبکہ مسلمان مجاہدین صرف چند ہزار تھے۔ گو کہ
مرہٹوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن قدرت نے اسلام کے شیدائیوں کو عطا فرمائی ۔ ایک اندازے کے مطابق تقریبا ایک لاکھ مرہٹے اس معرکہ حق و باطل میں کام آئے اور اس معرکہ کے بعد پورے ہندوستان میں مرہٹوں کی کمر ہمیشہ کے لئے ٹوٹ گئی تھی۔
اس شہر میں حضرت بوعلی شاہ قلندر رحمتہ الله علیہ کا مزار پر انوار بھی واقع ہے جن کی روحانی کرامات کو حضرت علامہ محمد اقبال نے اپنی مثنوی اسرار و رموز میں بیان کیا ہے۔
خواجہ الطاف حسین حالی کے آباؤ اجداد کو مغل عہد میں ایک اعلی مقام و مرتبہ حاصل رہا ہے اور انہیں بعد میں شاہ اودھ سے بھی وظیفہ ملتا رہا لیکن الطاف حسین کو زیادہ عرصہ تک والدین کی شفقت حاصل نہ رہی اور بچپن میں ہی والدین سے محروم ہو گئے ۔ ان کی پرورش ان کے بیان
بھائیوں نے کی ۔ سب سے پہلے انہیں قرآن مجید حفظ کروایا گیا۔ پیر سید جعفری کی شاگردی اختیار کر کے فارسی کی چند کتب پڑھیں۔ یہ وہی سید جعفری ہیں جو میر ممنون دہلوی کے داماد اور بھتیجے تھے۔ فارسی زبان میں ان کا نشانی ان دنوں کوئی نہ تھا۔

جب حالی نے فارسی تعلیم میں کافی دسترس حاصل کر لی تو عربی سیکھنے کے لئے حاجی اسمعیل انصاری سے فیض حاصل کیا۔ حاجی صاحب علم صرف کے مشہور عالم تھے۔ انہوں نے حالی کو صرف ونحو کا علم دیا۔ اسی طرح پانی پت کے مشہور فاضل و عالم اشخاص جن میں مولوی
عمران مولوی محب الله مولوی قلندر علی سے منظق، فلسفه، حدیث اور فقہ کا سبق لیا اور اس کی تکمیل کے بعد دہلی روانہ ہو گئے اور ایک عربی رسالہ جاری کرنے کا اہتمام کیا۔ اسی دوران آپ کی شادی ہوگئی اور آپ نے کلکٹرضلع حصار کے دفتر میں ملازمت اختیار کر لی لیکن ان کی نوکری
کے شروع ہی میں 1857 ء کا انقلاب برپا ہوا اور خواجہ الطاف حسین ملازمت چھوڑ کر واپس پانی
پت چلے آئے اور کچھ عرصہ بیکار ہے لیکن تلاش معاش کرتے رہے۔
1874ء میں کرنل ہالرائڈ جو کہ محکمہ تعلیمات پنجاب میں ڈائر یکٹر تھے ایک نئی قسم کے مشاعرے کی بنیاد رکھی۔ اس میں مصرع طرح کی بجائے نظم کا عنوان تجویز کر کے شعراء کرام کوطبع آزمائی کا موقع دیا جاتا۔ ان میں خواجہ الطاف حسین مولوی محمد حسین آزاد اور مرزا ارشد گورگانی کو روح رواں مانا جاتا تھا۔ اردو میں نیچرل شاعری کی بسم اللہ بھی خواجہ الطاف حسین حالی نے کی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب سرسید احمد خان مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کی تحریک پر توجہ دے رہے تھے۔ انہوں نے خواجہ الطاف حسین حالی کو مسلمانوں کی حالت زار کی طرف متوجہ کیا چنانچہ 1878ء میں انہوں نے” مدو جزر اسلام” لکھی جو مسدس حالی کے نام سے آج تک یاد کی جاتی ہے۔ اسی مسدس حالی کو اردو زبان کی پہلی طویل نظم کہا جاتا ہے۔ لاہور میں انگریزی حکومت انگریزی کتب کو اردو میں ڈھال رہی تھی اور اس مقصد کے لئے مترجم دن رات کام کر رہے تھے۔ اسے اتفاق کہئے کہ ان تراجم پر نظرثانی کرنے کے لئے الطاف حسین حالی کو گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازمت پیش کی گئی۔ اس طرح آپ کو انگریزی ادب پڑھنے کا موقع ملا۔ آپ 1890ء تک یہیں کام کرتے رہے اور بڑی جانفشانی سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے۔ لاہور رہتے ہوئے چند ماہ تک چیفس کالج میں بھی کام کیا جہاں سے آپ اینگلو عربک سکول دہلی میں مدرس متعین کر دیئے گئے۔ اسی دوران آپ کی ملاقات وزیراعظم ریاست حیدرآباد ” سر آسمان جاہ ” سے ہوئی جو سرسید احمد خان کے دولت کدہ پر گاہے گاہے حاضر ہوتے تھے۔ انہوں نے ریاست حیدرآباد کی طرف سے ایک سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر فرمایا۔ آپ نے وظیفہ ملنے کے بعد ملازمت چھوڑ کر مسلمانوں کی قومی ملی اور علمی خدمات کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔
انگریزی حکومت نے آپ کی خدمات کو سراہتے ہوئے شمس العلماء کے خطاب سے نوازا۔ آپ نے 31 دسمبر 1914ء کو پانی پت میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔

تصانیف:

  1. مثنویاں ( مناظرہ تعصب و انصاف، رحم و انصاف، برکھارت، نشاطِ امید حب وطن)
  2. مسدس حالی
  3. شکوۂ ہند
  4. کلیات حالی ( جس میں ان کا دیوان مع مقدمہ شعر و شاعری شائع ہوا)
  5. مناجات بیوہ اور چپ کی داد
  6. مراثی غالب و حکیم و تباہی خان دہلی وغیرہ
  7. مجموعہ نظم حالی
  8. مجموعہ نظم فارسی
  9. تریاق مسموم
  10. طبقات الارض
  11. مجالس النساء
  12. حیات سعدی
  13. مقدمہ شعر و شاعری
  14. یادگار غالب
  15. حیات جاوید