مثالیت

مادیت اور مادیت پسندوں کے نظریے کے عین برعکس
مثالیت اور مثالیت پسندوں کا نظریہ یہ ہے کہ مادہ نہیں، خیال یا ذہن ہی حقیقی ہے۔ مادہ تو محض اس کا عکس ہے۔ مثالیت پسندی کا آغاز افلاطون کے نظریہ اعیان سے ہوتا ہے۔
افلاطون کے نزدیک یہ مادی عالم جسے ہم اپنے حواس
سے معلوم کرتے ہیں حقیقت نہیں بلکہ یہ عکس ہے ایک ایسے عالم کا جو مادی کائنات سے ماورا ہے اور ان گنت مستقل بالذات، ازلی ، ابدی، غیر مخلوق، معروضی اور غیر متبدل اعیان یا امثال پر مشتمل ہے۔ عالم مادی کی تمام اشیاء عالم اعیان کی اشیاء کی ناقص نقلیں عکس یا سائے ہیں۔ مادی کا ئنات کے غیر حقیقی ہونے کا یہ مفروضہ بعد میں متعدد پیرایوں میں اظہار پاتا رہا ہے جیسے:

(الف ) اپنی نمود کے لیے مادہ ذہن کا محتاج ہے۔
(ب) آفاقی ذہن مادے کا خالق ہے۔
(ج) انسانی ذہن مادے کا خالق ہے۔
(د) موضوع معروض کا خالق ہے۔
(ہ) کسی شے کا وجود میرے علم پرمنحصر ہے اور میں صرف اپنی ذہنی کیفیت ہی کا صحیح علم رکھتا ہوں ۔ پس میری کیفیت ہی کو وجود حقیقیقی ہے۔
(و) بادی کائنات کا ارتقا انسان کے ذہنی ارتقا کا عکس یا نتیجہ ہے اور بالآخر کائنات کے غیر حقیقی اور ذہن کے حقیقی ہونے کا یہ نظریہ حد درجہ موضوعیت کے ساتھ آمیزش پا کر اس دعوے پر منتج ہوا کہ مادہ کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ۔ جارج برکلے نے یہ کہہ کر کہ مثالیت یا تصوریت کو اس کے نقطۂ کمال تک پہنچا دیا کہ مادہ تو محض ایک افسانوی سی شے ہے۔ مادے کا تو کوئی وجود ہی نہیں۔ خارجی کائنات جے مادے پرمشتمل سمجھا جاتا ہے
اور کسی حد تک انسان کے ذہن سے آزاد اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی۔
لیکن مادی کائنات کی لامحدود وسعتوں کا انکشاف کر کے سائنس نے مثالیت پسندی کی ذہن پرستی پر کاری ضرب لگائی ہے۔ انسانی ذہن کو اس مادی کائنات کا خالق کیسے گردانا جا سکتا ہے جس کا وہ تخیل اور تصور کے زور سے احاطہ بھی نہیں کر سکتا۔
ہیئت کے غرور شکن انکشافات سے پہلے انسان اپنے آپ کو مرکز کائنات ، حاصل کائنات اور آقائے کائنات جانتا تھا اور برتری کی ترنگ میں اسے اپنے ذہن کی تخلیق سمجھ تھا۔

آج یہ بات ممکن نہیں رہی ۔ لیکن انسان کی کوشش ہے کہ پھر سے کائنات کے ساتھ کوئی جذباتی یا شعوری رشتہ ڈھونڈ نکالے۔ مثالیت کی جدید صورتیں اسی انسانی بے بسی اور احساس بے چارگی کی مظہر ہیں۔ فائدے میں رہ رہے جو کائنات کو صنعت پروردگار مانتے تھے۔

البتہ مثالیت کا ایک رخ اخلاقی مثالیت بھی ہے یعنی اقدار اور نصب العینوں کا تعین کرنا ۔’’ہست‘‘ سے غیر مطمئن ہو کر ’’بایست‘‘ کے حصول کی کوشش کرنا اور مثالیت کا یہ پہلو اب بھی انسانی دنیا میں پوری طرح کام کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ ادبی مثالیت بھی اخلاقی مثالیت ہی کی ایک شکل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے