ٹکسال، ٹکسالی

ٹکسال کے لغوی معنی دار الضرب کے ہیں یعنی وہ جگہ
جہاں ملک بھر کے لیے سکے ڈھلتے ہیں تاکہ اہل ملک اپنے اپنے غیرمتفق علیہ اور متفاوت سکوں میں لین دین کی زحمت سے بچ جائیں اور ان معیاری مرکزی اور معین سکوں کو اپنی ضروریات کے لیے استعمال کریں۔
انسانی اور ادبی اصطلاح میں ٹکسال سے مراد وہ مرکزی
ادارہ ،شہر یا مقام ہے جہاں کی زبان پورے ملک کے لیے معیار
سمجھی جاتی ہو۔ اگر ہر شخص اپنے اپنے غیرمتفق علیہ اور متفاوت لفظوں اور محاوروں کے استعال پر اصرار کرے تو ادبی معیار قائم نہیں رہ سکتا۔ اس لیے ضرورت پیش آتی ہے کہ کسی خاص مرکز کے الفاظ (زبان) کو معیار قرار دے لیا جائے اور لوگ ان الفاظ کو سکہ رائج الوقت کی طرح تسلیم کریں اور استعمال میں لائیں ۔ملوکیت کے دور میں شعراء و ادبا علم و فضلا حتٰی کہ حکما وفقہا کے لیے بھی شاہی درباروں کی کشش بڑی اہمیت رکھتی تھی جس کےے نتیجے میں ملک بھر سے اہل قلم اور اہل علم وہاں جمع ہو جاتے تھے اور دارالسلطنت سیاسی مرکز ہونے کے علم فضل شعرو ادب، تصنیف و تالیف اور زبان کی تہذیب و توسیع کا بھی مرکز بن جاتا تھا۔ ایسے شہر کی زبان بھی بجا طور پر مستند سمجھی جاتی تھی۔ چنانچہ اسے ٹکسال کا درجہ حاصل ہو جاتا تھا۔ برصغیر میں شہر دہلی صدیوں تک مسلمانوں کا دارالسلطنت رہا۔ چنانچہ زبان اردو کے سلسلے میں بھی اسے ٹکسال کا درجہ حاصل رہا۔

لکھنؤ کا دربار مرکزی دربار تو نہ تھا لیکن سیاسی اور معاشی اعتبار سے لٹی پٹی دلی کے مقابلے میں ریاست اودھ یقینا ایک خوشحال ریاست تھی جہاں امن کی فضا بھی موجوتھی ۔ دہلی کے اہل قلم اور اہل علم ہجرت کر کے لکھنؤ پہنچے اور لکھنو کے حکام و امرا نے ان کی پرورش اور قدردانی میں شاہانہ فیاضیوں اور حوصلے سے کام لیا۔ اس طرح دلی کے ساتھ ساتھ کسی بھی علم وفضل ، شعر و ادب ، تصنیف و تالیف اور زبان کی توسیع و تہذیب کا مرکز بن گیا اور اسے بھی ٹکسال کا درجہ حاصل ہوگیا۔

1856ء میں لکھنؤ کا دربار ختم ہوا لیکن انگریزوں نے اودھ کو اپنے مقبوضات میں شامل کر لیا اور 1857ء میں دہلی کا
بھی یہی حشر ہوا۔ دونوں دربار ٹوٹ گئے۔ اہل علم کچھ قید
ہوئے، کچھ قتل کیے گئے باقی تتر بتر ہوگئے ۔ انجمنیں ختم ہو گئیں، باقاعدگی سے انعقاد پریز ہونے والی ادبی محفلیں خواب و خیال ہو گئیں۔
اس قیامت کے بعد جب زندگی نے پھر سنبالا لیا تو اہل دہلی اور ابل لکھنؤ نے اپنی اپنی زبان کی ٹکسالی حیثیت پر پھر زور دیا مگر ان کی تہذیب وتوسیع کے مسلمہ مرکزوں کی حیثیت انھیں پھر حاصل نہ ہوسکی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ایک عرصے تک زبان کی ٹکسال رہنے کی وجہ سے ان شہروں کی زبان سے اس کے بعد بھی استناد کیا جاتا رہا اور آج بھی کسی لفظ پر اختلاف کی صورت میں دہلی یا لکھنؤ کے مشاہیر ادب کے کلام سے استناد کیا جاتا ہے۔

1857ء کے بعد رام پور اور حیدر آباد کے درباروں نے بھی زبان و ادب کی خدمت کی۔ لیکن ان مقامات کو ٹکسال کا درجہ بھی حاصل نہ ہو سکا ۔ کیونکہ زندگی نے کچھ ایسی کروٹ لی تھی کہ اب کسی شہر یا مقام کا ٹکسال بننا ممکن نہیں رہا تھا۔ چھاپہ خانے بکثرت قائم ہو چکے تھے۔ اخبارات ورسائل نے ادب کی دنیا میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ مسائل کے انبار کی وجہ سے زبان کے مقابلے میں مواد کو برتری حاصل ہو چکی تھی ۔ زبان کی صحت کے محدود نظریے کی جگہ توسیع زبان کی خواہش نے لے لی تھی ۔ ملک گیر ادبی اور سیاسی تحریکیں جڑ پکڑنے لگی تھیں ۔ ادبی مسابقت کے نئے اور بہتر میدان تلاش کر لیے گئے تھے۔ انگریزی زبان اور علم فن کے اثرات میں نہایت سرعت سے اضافہ ہورہا تھا۔ ٹکسال کی حیثیت سے زبان دہلی کی زبان لکھنؤ پر یا زبان لکھنؤ کی زبان دہلی پر برتری کی بحث اگرچہ بعض حلقوں میں اب بھی چل رہی تھی مگر اس دور میں زبان کی توسیع وترقی کا کام جن لوگوں کے ہاتھ میں تھا، وہ اس مردہ مسئلے کو اہمیت دینے کے قائل نہ تھے۔ یہ لوگ تھے سرسید احمد خاں اور ان کے رفقاء حالی، شبلی نذیراحمد، مولوی چرٹ علی اور وحید الدین سلیم وغیرہ ۔

جہاں تک دلی کا تعلق ہے مشاہیر میں سے میر، درد، سودا، میر حسن، اثر ، سوز ، میرامن، غالب ، ذوق، ظفر، داغ، آزاد، نذیر احمد دہلوی اور خواجہ حسن نظامی وغیرہ کی زبان ٹکسالی سمجھی جاتی ہے اور جہاں تک لکھنؤ کا تعلق ہے آتش، ناسخ نسیم رشک، وزیر، امانت، سرور، سرشار اور حسرت و غیرہ ہم کی زبان کو ٹکسالی سمجھاجاتا ہے۔

ٹکسال کے اصطلاحی معنوں کی اس تفصیل کے بعد یہ امر محتاج وضاحت نہیں رہا کہ جب کسی لفظ یا ترکیب کو ٹکسال باہر قرار دیا جاتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس خاص لفظ یا مرکب کو اہل زبان علماء و فضلاء کی تائید حاصل نہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے